01-May-2022 لیکھنی کی کہانی ۔ آں چست از روز میری قسط 19
آں چست
از روز میری
قسط نمبر19
شتابی میں کار ہوسپٹل کے پارکنگ ایریا میں پارک کرتے احد اسی آن کار سے نکلتا ہوسپٹل کی اندورنی جانب دوڑا۔
"یہاں ابھی ایک پیشنٹ کو لایا گیا ہے جسکا' جسکا ایکسیڈنٹ ہوا ہے کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ وہ اس وقت کہاں ہیں؟"۔ تھکے' گرتے پڑتے قدموں سے احد ریسیپشن پہ پہنچا جہاں ریسیپشنسٹ سامنے ٹیبل پہ رکھے مانیٹر پہ نظر گاڑھے پوئے تھی۔
"جی سر وہ ابھی آئی سی یو میں ہے"۔ ریسیپشنسٹ نے سامنے رکھے رجسٹر پہ سرسری نظر دوڑائی۔
"تھینک یو"۔ بوکھلاہٹ میں احد دائیں جانب مڑ گیا جہاں تھوڑا فاصلے پہ سمعان صاحب، راضیہ بیگم، عامر صاحب، عمارہ بیگم اور شہریار کو دیکھ کے رک گیا۔
"پاپا احد"۔ شہریار کی نظر جونہی احد کی طرف اٹھی اسنے اپنے مقابل کھڑے سمعان صاحب کو مخاطب کیا جس پہ سمعان صاحب نے احد کو بے بسی میں دیکھا۔
سمعان صاحب کے متعاقب باقی سبکی نگاہیں بھی احد پہ جمی تھیں۔
احد لڑکھڑاتے قدموں سے انکے قریب آیا۔
مستقل رونے کے سبب آنسو احد کی پلکوں میں جیسے بستہ ہو کے رہ گئے تھے۔
"احد بیٹا حوصلہ کرو اللہ بہتر کرے گا"۔ سمعان صاحب نے آگے بڑھ کر احد کو گلے لگایا۔
راضیہ بیگم' عمارہ بیگم کو تسلی دینے کی غرض سے انکے ہمراہ بینچ پہ بیٹھی تھیں۔
"مجھے مشائم سے ملنا ہے"۔ سمعان صاحب کو سائیڈ پہ کرتے احد دائیں جانب آئی سی یو کے دروازے کی طرف بڑھا۔
دروازے میں لگے گلاس سے مشائم کا بےجان پڑا وجود دیکھتے احد کی آنکھوں میں آنسوؤں نے سر اٹھایا تھا۔ کپکپاتے ہاتھوں سے دروازہ کھولتے احد آئی سی یو میں داخل ہوا اور ہلکے قدم رکھتا مشائم کے بیڈ کے قریب آ کھڑا ہوا۔
"آئم سوری مشو"۔ مشائم کے پیروں پہ ہاتھ رکھتے احد کی ہمت جواب دے گئی تھی۔ "مجھے تمھیں یوں تنہا نہیں چھوڑنا چاہیئے تھا تمھارے ساتھ رہنا چاہیئے تھا تمھیں مجھ سے ملنا تھا اور میں ۔۔۔۔ مجھے میری ریکارڈنگ کی پڑی تھی"۔ مشائم کے چہرے کو دیکھتے احد نے الفاظ کے ذریعہ اپنے اندر مقید بے بسی کو عیاں کرنا شروع کیا۔
سانس میں دشواری کے سبب مشائم کے منہ پہ مصنوعی آکسیجن کی غرض سے ماسک لگا تھا۔
"میں نے تمھیں کہا تھا کہ یہ تعویز اتار دو مگر تم نہیں مانے انجام تمھارے سامنے ہے"۔ گپت آواز دوبارہ سے احد کے کانوں میں گونجی۔
"تمھاری ہمت کیسے ہوئی ایسا کرنے کی"۔ احد چلایا تھا۔
"اس چڑیا میں تمھاری جان بسی ہے نا"۔ مشائم کے چہرے پہ لگا ماسک خود نویس آہستہ آہستہ اترنا شروع ہوا جس سے مشائم کو سانس لینے میں دقت ہونے لگی تھی۔
"نہیں ایسا مت کرو میں تمھاری بات مانوں گا"۔ مشائم کی اکھڑتی سانسیں احد کے دل کی دھڑکنوں کو روکنے لگیں تھیں۔
"شاباش تم سے اسی بات کی بعید تھی"۔ غیبی قوت نے دھیمے سے بولتے ماسک دوبارہ سے مشائم کے چہرے پہ ترتیب سے لگا دیا۔
"یہ لو میں نے یہ تعویز اتار دیا"۔ احد نے بازو سے تعویز کھینچ کر اتارا اور سائیڈ ٹیبل پہ رکھا۔
"یہ میری پہلی خواہش تھی لیکن اس لڑکی کی خیر و عافیت کیکیئے اب تمھیں میری دوسری بات ماننی ہوگی"۔ گپت آواز نے قطعی کہا۔
"ک ک کونسی بات؟؟؟"۔ احد کے دل میں ہزار طرح کے وبال اٹھنے لگے تھے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"زہرہ آپی مشائم کی کوئی خبر آئی؟"۔ زہرہ پریشان حالی ٹیرس پہ ٹہل رہی تھی جب فروا اسکے قریب آکر کہنے لگی۔
"نہیں فروا ابھی تک تو مشائم کی کوئی خبر نہیں آئی دعا کرو کہ اسے کچھ نا ہو میرا دل بیٹھا جا رہا ہے نجانے کیا ہوگا"۔ زہرہ نے خدشہ ظاہر کیا۔
"فکر مند نا ہوں خدا نے چاہا تو مشی کو کچھ نہیں ہوگا اور آپ دیکھنا انشاء اللہ مشائم ایک دن پہلے کی طرح اس گھر میں دوڑتی بھاگتی سب کو تنگ کرتی نظر آئے گی"۔ زہرہ کے قریب آتے فروا نے طمانیت سے کہا۔
"انشاءاللہ فروا' اللہ کرے ایسا ہی ہو"۔ زہرہ نے اتفاق رائے سے کام لیا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"یا اللہ میں تیرا بہت گناہگار بندہ ہوں میرے کاندھوں پہ گنہاہوں کا بوجھ گرچہ بہت زیادہ ہے لیکن تیری رحمت کی چادر اسے ڈھانپ سکتی ہے تو رحیم ہے تو وہ سب کچھ کر سکتا ہے جسکا میں تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اے میرے پاک پروردگار تیرا یہ بندہ تجھ سے ہاتھ پھیلائے مشائم کی زندگی کی بھیک مانگتا ہے تو اپنے بندوں کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا جو بھی تیرے در پہ آیا ہے تونے اسے اپنی بساط سے زیادہ نوازا ہے۔ یااللہ تجھے تیری محبوب ہستی خاتم المرسلین کا واسطہ مشائم کو زندگی عطا کر دے۔ میری مشائم کو زندگ ۔۔۔۔ میں تجھ سے التجا ۔۔۔۔۔"۔ مسجد کا یہ وسیع صحن جس پہ اس وقت گنے چنے نمازی تھے ان میں سے اکثر و بیشتر نماز کی ادائیگی کے بعد اپنے گھروں کی جانب چل پڑے تھے سوائے انکے جنکا دل دنیاوی دکھ، رنج و غم سے پر تھا اور احد بھی ان میں سے ایک تھا جو رب کی بارگاہ میں ہاتھ پھیلائے مشائم کی زندگی کیلئے دعاگو تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"احد کہاں گیا شہریار؟؟"۔ شہریار جو ہوسپٹل کے باہر کھڑا تھا' کے قریب آتے سمعان صاحب نے مخاطب کیا۔
"پاپا پتہ نہیں بتا کر نہیں گیا"۔ سمعان صاحب کی آواز پہ شہریار اس طرف گھوما۔
"بیٹا تم نے اسے جانے کیوں دیا تم جانتے ہو مشائم کے ایکسیڈنٹ کا سن کر اسکی حالت بہت خراب تھی ایسے میں اگر وہ ڈرائیونگ کرے گا مجھے ڈر ہے کہیں خود کو نقصان نا پہنچا لے"۔ سمعان صاحب نے سرزنش کرتے خدشہ ظاہر کیا۔
"پاپا آپ فکر نا کریں میں ابھی اسے کال کرکے پتہ کرتا ہوں"۔ سمعان صاحب کو مطمئن کرتے شہریار نے پینٹ کی پاکٹ سے فون نکال کر احد کا نمبر ڈائل کیا جو دوسری رنگ پہ اٹھا لیا گیا تھا۔
"ہیلو احد تم کہاں ہو؟"۔ کال ریسیو ہوتے ہی شہریار نے جھٹ پٹ کہا۔
"بھائی میں گھر جا رہا ہوں"۔ مستقل رونے کے سبب احد کے گلے میں سوز پیدا ہو گیا تھا جو اسکی آواز میں محسوس کیا جا سکتا تھا۔
"چلو ٹھیک ہے تم گھر جا کر آرام کرو اور کہیں مت جانا"۔ شہریار نے سختی سے ہدایت کی۔
"جی بھائی آپ مشائم کا خیال رکھیئے گا' بائے"۔ شہریار کو تنبیہ کرتے احد نے کال کاٹ دی۔
"کیا ہوا شہریار؟ احد کہاں ہے؟؟"۔ سمعان صاحب نے فورا سے کہا۔
"پاپا احد گھر جا رہا ہے میں نے بول دیا ہے کہ گھر جا کر آرام کر لے"۔ شہریار نے جوابا کہا۔
"بیٹا ایسی سچویشن میں اسے کہاں آرام ملے گا؟ اللہ اسے ہمت اور صبر دے"۔ سمعان صاحب نے کہا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
اشنان کے بعد احد واش روم سے نکلتا بیڈ کی طرف آیا اور بیٹھ گیا۔ سائیڈ ٹیبل پہ پڑی اپنی اور مشائم کی تصویر پہ نظر جاتے ہی احد روانسا ہوا۔ آنکھوں کے پردوں میں مخفی بے رنگ پانی باڑ توڑتے رخسار پہ بہہ نکلا تھا۔
جو ہو سکے تو چلے آو آج میری طرف
ملے بھی دیر ہوئی اور جی بھی اداس ہے💔
ہاتھ بڑھاتے احد نے فوٹو فریم اٹھا کر اس پہ ہاتھ پھیرا جبکہ احد کی آنکھ سے بہتا جھرنا مسلسل اسکا دامن بھگو رہا تھا۔
نم رخسار، بھیگی پلکیں ملول چہرہ لیئے احد کراہ کر رہ گیا پھر دائیں ہاتھ کی پشت کی مدد سے آنسو رخسار میں جذب کرنے کی غیر ممکن کاوش کی۔
"میرے حصے کی خوشی کو ۔۔۔۔۔۔ ہنسی کو تو ۔۔۔۔۔۔ چاہے ۔۔۔۔۔۔ آدھا کر
چاہے لے لے تو ۔۔۔۔۔۔۔ میری زندگی ۔۔۔۔۔۔۔ پر تو مجھ سے ۔۔۔۔۔۔ وعدہ کر
اسکے اشکوں پہ ۔۔۔۔۔ غموں پہ ۔۔۔۔۔۔ دکھوں پہ ۔۔۔۔۔۔ ہر اسکے ۔۔۔۔۔ زخم پر
حق میرا ہی رہا ۔۔۔۔۔۔۔ ہر جگہ ۔۔۔۔۔۔ ہر گھڑی ۔۔۔۔ ہاں ۔۔۔۔ عمر بھر
اب فقط ۔۔۔۔۔ ہو ۔۔۔۔۔ یہی
وہ ۔۔۔۔ رہے مجھ میں ۔۔۔۔۔ ہی
ہو جدا ۔۔۔۔ کہنے کو
بچھ ۔۔۔۔۔ بچھڑے نا ۔۔۔۔ پر ۔۔۔۔۔ ک کبھی"۔
تاہنوز رونے کے باعث مشائم کی تصویر کا عکس احد کی آنکھوں میں دھندلا سا گیا تھا اور گنگنانے کی آواز آنسوؤں کی آڑ میں مدھم ہوتی چلی جا رہی تھی۔
گلے کے تار رونے کے سبب اب خراب ہو گئے تھے کہ گانے کے الفاظ کے ساتھ احد کی رنجیدہ آواز بھی سننے والے کو بآسانی رونے پہ آمادہ کر سکتی تھی۔
اس دم احد کے روم کا دروازہ زوردار آواز پیدا کیئے یوں کھلا جیسے کسی نے عتاب میں دھکا دے کر کھولا ہو۔
احد نے فوٹو فریم سینے سے لگا کر آنکھیں موند لیں تھیں مگر کیفیت جوں کی توں برقرار تھی۔
"تم اس لڑکی کیلیئے اپنے انمول اور قیمتی آنسو کیوں برباد کر رہے ہو؟"۔ گپت آواز نے خفگی سے پوچھا۔
احد نے جواب میں خاموش رہنا ضروری سمجھا۔
کچھ ہی لمحوں میں ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے رکھا سٹول ہوا میں اڑتا احد کے سامنے آ ٹھہرا اگلے ہی لمحے سفید لباس میں ملبوس حسین لڑکی کا جان لیوا حسن آشکار ہوا۔
"تم رونا بند کرو مجھے غصہ آتا ہے جب تم روتے ہو"۔
"کیا ملا تمھیں یہ سب کر کے؟ تم نے اسکا ایکسیڈنٹ کروا کے اچھا نہیں کیا"۔ احد نے آنکھیں کھولتے غصے میں کہا۔
"تم نے میری بات نہیں مانی تھی مجھے غصہ آ گیا اور غصے میں تو کچھ پتہ نہیں چلتا ویسے بھی پیار اور غصے میں سب جائز ہوتا ہے"۔ گپت آواز نے ہنستے ہوئے کہا۔
"پیار اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے انسان جس سے پیار کرتا ہے اسے تکلیف دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا اسی وجہ سے مشائم کو تکلیف میں دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے مگر تم کہاں سمجھو گی کیونکہ تم نے پیار کیا جو نہیں"۔ احد نے بولتے ہی فوٹو فریم سائیڈ پہ رکھی۔
"میں تم سے پیار کرتی ہوں اور تمھارے پیار کیلیئے ہی ایسا کیا ہے"۔ غیبی آواز نے تپ کر کہا۔
"جھوٹ' جھوٹ بولتی ہو تم اگر تم مجھ سے پیار کرتی ہوتی تو مشائم کو نقصان پہنچانے کے بارے میں سوچتی ہی نہیں"۔
"میں تم سے پیار کرتی ہوں مشائم سے نہیں"۔ غیبی قوت طیش میں آئی تھی۔
"لیکن میں مشائم سے پیار کرتا ہوں اور مرتے دم تک اسی سے کروں گا"۔ احد نے سنجیدگی سے کہا۔
"میں تمھیں مجبور کر دوں گی اور اسکے لیئے مجھے جو بن پڑا میں کروں گی"۔
تم زیادہ سے زیادہ کیا کر سکتی ہو میری جان لے سکتی ہو بس تم اور کچھ نہیں کر سکتی۔ ایک یہی کام تو کرنا جانتی ہو تم"۔ احد طنزیہ ہنسا تھا۔
"تمھاری نہیں تمھارے چاہنے والوں کی لوں گی"۔
"نہیں تم ایسا کچھ نہیں کرو گی"۔ احد کے جسم میں پھریری دوڑ گئی۔
"پھر تمھیں مشائم سے دور رہنا ہوگا"۔ گپت آواز نے قطعی کہا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆